۲۸ آبان ۱۴۰۳ |۱۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 18, 2024
مولانا محمد صادق آل نجم العلماء

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید محمد صادق آل نجم الحسن سن 1333 ہجری میں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا سید محمد کاظم جید عالم و مجتہد تھے۔ موصوف کے جد نجم الملت آیت اللہ سیدنجم الحسن رضوی برصغیر میں اپنے وقت کے مرجع اور حوزہ علمیہ ناظمیہ لکھنؤ کے سربراہ تھے۔

مولانا سید محمد صادق نے ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد سے حاصل کی، اس کے بعد مدرسہ ناظمیہ میں داخل ہوئے اور نجم الملت کی سرپرستی میں رہ کر جید اساتذہ سے کسب فیض کیا ۔ آپ نے جہاں دوسرے اساتذہ سے فقہ و اصول کی تکمیل کی وہیں اپنے جد نجم الملت سے بھی خوب استفادہ کیا اور ناظمیہ کی آخری سند "ممتازالافاضل" امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔

آپ لکھنؤ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عازم عراق ہوئے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بزرگ علمائے کرام کے دروس میں شرکت کی۔ موصوف نے اپنے آپ کو علمی مدارج میں اسقدر بلند کیا کہ علمائے کرام نے آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اجازات سے نوازا۔ آیت اللہ محمد حسین نائنی نے اجازہ دے کر آپ کی قدردانی کی ، آیت اللہ نائنی اجازہ میں تحریر فرماتے ہیں: بیشک مولانا نجم الحسن کے پوتے فاضل خبیر سید محمد صادق کو میں نے اجا زہ کا اہل سمجھتے ہوئے اجازہ عطا فرمایا ۔

آپ جید الحافظہ، فقیہ، متکلم، ادیب، فلسفی، اور بلند پایہ مصنف تھے ۔ عربی ادب کے استاد کامل تسلیم کیے جاتے تھے حماسہ، متنبی، دیوان رضی، دیوان ابوتمام کے سینکڑوں اشعار حفظ تھے نہج البلاغہ کی عبارتیں یاد تھیں اور بغیر دیکھے ان کتابوں کو پڑھاتے تھے۔

مولانا صادق مدرسہ ناظمیہ میں وظیفہ تدریس کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ شیعہ عربی کالج میں بھی تشنگان علوم کو سیراب کرتے تھے۔ ہر وقت آپ کے گرد طلباء کا ہجوم لگا رہتا تھا اور آپ انتہائی شوق کے ساتھ ان کے مسائل حل کرنے میں منہمک رہتے تھے انتہا تو یہ ہے کہ آپ راہ چلتے طلباء کے دروس کی گھتیاں سلجھاتے ہوئے چلے جاتے تھے۔

آخری عمر میں بینائی نے ساتھ چھوڑ دیا مگر اس کے باوجود تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور آپ اسی حالت میں پابندی سے ناظمیہ میں درس دیتے رہے۔ جب آپ بہت کمزور ہوگئے تو گھر ہی پر طلباء کو درس دیتے تھے ۔ آپ کو فقہ و اصول میں استنباطی صلاحیت حاصل تھی۔ فسخ نکاح مجنون کے سلسلے میں آپ نے رسالہ تحریر کیا جب اسے مفتی اعظم سید احمد علی نے ملاحظہ کیا تو اجازہ نقل روایت تحریر فرمایا جس میں آپ کی فقہی استنباطی صلاحیت کا بھی اعتراف کیا۔

آپ کی بلند پایہ شخصیت علمی حلقوں میں معروف تھی تدریس اور تحریر دونوں میں کمال حاصل تھا۔آپ نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور سینکڑوں مضامین رسالوں میں شائع ہوئے۔موصوف نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا جو آپ کا علمی اور ادبی شاہکار ہے۔ یہ ترجمہ تفسیری مآخد سے مکمل مطابقت و ہم آہنگی رکھتا ہے ترجمہ کی زبان میں ادبی چاشنی پائی جاتی ہے نیز الفاظ کا استعمال بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ کیا گیا ہے۔الفاظ کا استعمال بھی بر محل ہے۔

مولانا محمد صادق کی دیگر تالیفات میں: ترجمہ نہج البلاغہ، وجود حجت، ترجمہ صحیفہ علویہ، ہاشمی جواہر پارے، حقیقت مساوات، دیوان عربی اشعار ، مولود حرم، شہید کربلا وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

جہاں آپ مدرس، مؤلف اور محقق تھے وہیں عربی، فارسی اور اردو زبان کے بہترین شاعر بھی تھے موصوف کی اعلی درجہ کی شاعری کا اندازہ رسالہ "نغمۃ الفواد اور نشید الاقبال" سے لگایا جا سکتا ہے ان رسالوں کو عربی نظم سے فارسی نظم میں ترجمہ کیا ہے۔ آپ کے شاگرد مولانا ظہیر عباس مدرس جامعہ ناظمیہ تحریر فرماتے ہیں کہ استاد محترم نے کلاس میں ایک موقع پر اپنے طالب علمی کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ علوم مشرقیہ میں دبیر ماہر اور عالم کے لئے اختبار ہوتا تھا میں بھی اختبار کے لئے گیا تو ممتحن نے عربی عبارت دی اور اس کا مطلب بیان کرنے کو کہا میں نے مصلحتا ًسکوت کیا تو ممتحن نے سوال کیا کہ اس کا مطلب آپ کو نہیں آتا تو میں نے جواب دیا مجھے خوب آتا ہے بس یہ سوچ رہا تھا کہ اس کا مطلب عربی نثر میں بیان کروں یا عربی نظم میں، فارسی نثرمیں بیان کروں یا فارسی نظم میں اردو نثر میں بیان کروں یا اردو نظم میں ممتحن میرے اس جواب سے سمجھ گئے اور کہا آپ کا اختبار ہوگیا بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ بہت منکسرالمزاج اور متواضع شخصیت کے مالک تھے۔ مزاج میں بلا کی سادگی پائی جاتی تھی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود شہرت اور ناموری سے دور رہتے تھے۔

اللہ نے آپ کو دو بیٹیاں اور تین بیٹے عطافرمائے جو بعد میں سید محمد حامد، سید محمد ماجد اور سید محمد عاقل کے نام سے پہچانے گئے۔ مولانا محمد صادق کی علمی میراث کے وارث آپ کے پوتے مولانا رضا کاظم پرنسپل سیدالمدارس امروہہ ہوئے ۔

آخرکار یہ علم و عمل کا آفتاب 28/ مارچ 1984 عیسوی کو لکھنؤ میں غروب ہو گیا۔ شہر میں غم کا ماحول چھا گیا ۔چاہنے والوں کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر جمع ہوگیا۔ تشیع جنازہ میں مؤمنین، علماء، اور طلاب کرام نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی۔ نماز جنازہ تاج العلماء مولانا سید محمد ذکی کی اقتدا میں ادا کی گئی اور حسینیہ غفرانمآب میں سپرد لحد کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .